علامہ اقبال : جدوجہد اور عمل کے شاعر

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں ترہے وہ نظارہ

علامہ اقبال وہ عظیم ہستی ہیں جس نے سوئی ہوئی امت کو جگایا جس نے مسلمانان ِ ہند میں انقلاب برپا کردیا۔ جس نے نہ صرف نشان ِ منزل دیا بلکہ منزل سر کرنے کا راستہ بھی بتا دیا ان کی شاعری امید کی کرن دکھاتی ہے توکہیں جہدِ مسلسل ، عمل پیہم سے منزل کے حصول کے لیے راہ متعین کرتی ہے، تو کہیں جوش و جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اور کہیں فہم و تدبر، حکمت و دانش کو قوم کی میراث گردانتی ہے تو کہیں عہد رفتہ سے جوڑے ہوئے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہےاور اہداف کا تعین کرتی ہے۔ اقبال تو وہ شخصیت ہیں جسے ہر ملک،ہر قوم اورہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنا شاعر تصور کرتے ہیں۔ کمیونسٹ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال ہمارےشاعرہیں کیونکہ علامہ اقبال پیغام دیتے ہیں۔

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کوجگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسرنہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو

ترکی ، تاجکستان ،ترکمانستان اور ایران وغیرہ کے باشندےاس لیے علامہ اقبال کو اپنا شاعر سمجھتے ہیں کہ علامہ اقبال اقبال کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے۔علامہ اقبال کی شاعری عمل کی شاعری ہے۔علامہ اقبال صرف نظریہ ہی نہیں پیش کرتے بلکہ اس نظریہ پر عمل کرنے کا طریقہ بھی بتاتے ہیں۔ اگر علامہ اقبال کی شاعری پڑھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے یہ نظریہ دیا کہ وہ انفرادی تربیت سے نیک صالح اجتماعیت کے خواہش مند ہیں۔ افراد کی ذہن سازی اور کردار سازی سے قوم و ملت کی عمارت کی تعمیر کے داعی ہیں۔اسی لیے تو ہر فرد کو خودی کا پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندےسے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

لیکن ساتھ ہی اسے حاصل کرنے کا درس یوں دیاکہ

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگرمیرا نہیں بنتا نو نہ بن اپنا تو بن

علامہ اقبال نے نہ صرف آزادی اور غلامی کا فرق بتایا بلکہ کہ غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کا ہنر بھی سکھلایا۔اگرہم غلامی سے نجات کے نظریہ کا مشاہدہ کرناچاہتے ہیں تو یہ نظریہ ہی کافی ہے۔

غلامی میں نہ کا م آتی ہیں شمشریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

لیکن ساتھ ہی عمل کا درس دیا جو کہ قرآن پاک کی سورۃ الصف کی آیات نمبر 10اور11(اے لوگوں! جو ایمان لائے کیا میں بتاو تم کو وہ تجارت جو نجات دےتم کو درد ناک عذاب سے۔ایمان لاو تم اللہ پر اور اس کے رسولﷺ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم جانتے ہو” کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے۔
ایسے لگتا ہےکہ علامہ اقبال ان آیات کی تفسیر شعر کی صورت میں لکھ رہے ہوں۔

میں تجھ کو بتاتا ہو ں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول ، طاوس و رباب آخر

علامہ اقبال نا صرف بے عمل شخص کو نا پسند قرار دیتے ہیں بلکہ احسن انداز میں عظمت ِ رفتہ کی یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے نزدیک عظمتِ رفتہ کا حصول صرف اور صرف عمل ہی سے ممکن ہے کیو نکہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

وہ علم کی کوئی وقعت نہیں رکھتا جس میں عمل کا خون پسینہ شامل نہ ہو اس لئے اقبال عمل پر زور دیتے ہیں۔ باتوں کے قائل نہیں۔ یہ تحریریں ، یہ تقریریں ، یہ مذاکرے، یہ محفلیں اور بحث و مباحثے کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھتے ۔جب تک ان میں عمل کا رنگ نہ جھلکتا ہو۔علامہ اقبال نے عملی جدوجہد کی طرف ترغیب بھی دی تو کیا خوبصورت انداز میں قرآن مجید کی سورۃالرعد کی آیات مبارکہ نمبر 11 اور 12 ” ہر شخص کے آگے اور پیچھے نگراں (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت میں تبدیلی نہ لے آئے” تفسیر معلوم ہوتا ہے۔
علامہ اقبال نے اس آیت کے مفہوم کو اس طرح شعر میں پرو دیاہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جیسے اپنی حالت کے آپ بدلنے کا

اور راستہ بتا دیا کہ قومیں وہی کامیاب ہوتی ہیں جو خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ نا کہ وہ جو گفتار کی غازی تو ہوں لیکن عمل سے عاری ہوں۔ اور نا ہی وہ جو حکمران تو نیک صالح چاہیں مگر خود برائی کی اتھا ں گہرائیوں میں گری ہوئی ہوں۔ منصف تو عادل چاہیں مگر ان کے اپنے اعمال اور روزمرہ کے افعال نا انصافی سے عبارت ہوں۔ حکام نیک چاہیں مگر خود ملاوٹ اور رشوت جیسے قبیح جرائم میں ملوث ہوں۔ استاد توقرونِ اولیٰ کے چاہیں مگرخود جہالت ، سماجی رسم ورواج، بت پرستی ، شخصیت پرستی اور توہم پرستی کو صدیوں سے سینے سے لگائے بیٹھےہیں۔ عظیم قوم بننے کے لیے تمام تر سماجی برائیوں ، ناانصافیوں ، بے ایمانیوں، جھوٹ فرد ترک کرنا ہوگا۔ نیکی کرنا اور نیکی کی طرف بولانا ہو گا۔ لہذا مختصرا ہمیں بھی عمل کی طرف آنا ہوگا۔ باتوں سے بات نہ بنے گی۔جنازوں میں کثیر تعداد کی شرکت سے زیادہ سچے اور کھرے رہنماکی حمایت میں عملی طور پر جدو جہد کرنا ہو گی۔ دوہرے معیارات ، منافقت اور دوغلے پن سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ اس لیے تو علامہ اقبال اپنے اشعارسے ہمارے دوہرے رویوں نہ صرف منظر کشی کرتے ہیں بلکہ ہمیں جھنجھوڑتے بھی ہیں اور مردِ میدان اور عملی انسان بننے کی ترغیب یوں دیتےہیں کہ

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں غازی بن نہ سکا
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
تر آنکھیں تو ہوجاتی ہیں پر کیا لذت اس رونے میں
جب خون جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے،من باتوں میں وہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا ،کردار کا غازی بن نہ سکا

تحریر: عبدالغفار انجم
03004939488
anjum207@gmail.com

اخبار میں اشاعت

روزنامہ نواۓ وقت اسلام آباد
9 نومبر 2022