جذ با تی ایڈز (جذ با تی دانشور)

ظہورآ دم سے لےکرآ ج تک ہر دور میں کوئی نہ کو ئی وباء ایسی پھوٹتی رہی جس کا علاج اس دورمیں نہیں ہوتا تھا ۔ ہرقسم کےحکماء اسے لاعلاج مرض قرار دے دیتے تھے ۔ اور بعد میں عرق ریزتحقیق سے ہر بیمار ی کا کوئی نہ کوئی علاج دریا فت ہوجا تا ۔ جیسےملیریا کئی صدیوں تک ہزاروں لوگوں کو لقمہ اجل بنا تا رہا ۔ لیکن تحقیق کے بعد آخرکار اس کا علاج بھی سامنے آیا۔ مو جودہ دور میں” ایچ آئی وی ایڈزـ” میں روز بہ روز اضا فہ ہورہا ہے ۔ ڈا کٹر اس مر ض کے علاج کے لیے دن رات تحقیق کے مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن تاحال اس مرض کا کوئی علاج دریا فت نہیں ہوسکا ۔ یہ اس قدر خطرناک مرض ہے کہ مریض کو گھن کی طرح کھا تا رہتا ہے اور چند سالوں میں اسے دنیا کو الوداع کہنا پڑجاتا ہے ۔
” ایچ آئی وی ایڈزـ”تو سا ئنس دانوں کی دریافت کردہ بیماری ہے۔ لیکن ایک ا یسا مرض بھی سامنے آ یا ہے جس کا نہ تو زمانہ قدیم میں کوئی علاج تھا ، نہ آج ہے اورنہ ہی شاید کبھی دریافت کیا جا سکے کیونکہ فاضل دوست اسے مرض تسلیم کریں گے ہی نہیں ۔ آ پ اس مرض کو کوئی بھی نام دے سکتے ہیں ۔ لیکن سوشل سائنس کی زبان میں اسے ” جذ با تی ایڈزـ”ــ کا نا م دیا جا سکتا ہے ۔ اس مر ض میں مبتلا مریضوں کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے ۔ جذباتی ایڈز کے مریض ناصرف معاشرے کیلئے ناسور ہیں بلکہ وہ خود اور ان کی بیماری بری طرح معاشرے سے علم وتحقیق اور حکمت ودانش کے سفید خلیا ت ختم کر نے کے درپے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں بھی کئی ایسے افراد ملیں گے۔ جو عقل وشعو ر سے زیا دہ جذباتیت پر زور دیتے ہیں ۔ وہ فرطِ جذبات میں کسی سے نفرت یا محبت میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے رہنا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں ۔ یہ لکشمی کے پجاری ، نام نہاد دانشور ایسا کوئی موقع ہا تھ سے نہیں جانے دیتے جس کے ذریعے وہ عام آدمی کے جذبا ت سے نہ کھیلتے ہوں ۔ “ایچ آئی وی ایڈزـ” اور “جذباتی ایڈز ” دونوں ایک ہی جیسی بیماریا ں ہیں مگر دونوں میں ایک فرق بھی ہے اوروہ فرق یہ ہے کہ ایک تو جسم میں موجود خون کے سفید خلیات (جو کہ جسم کا مدافعتی نظام ہوتا ہے) کو تباہ کر کے آدمی کو قبر میں پہنچا دیتی ہے جبکہ دوسر ی علم و تحقیق ، حکمت ودانش ،فہم وتدبر اور عقل وشعور کے سفید خلیات کو ختم کر کے معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔”جذباتی ایڈز” ایک ایسا لاعلاج مرض ہے جس میں مبتلا مریض محبت کو نفرت ، دوستی کو دشمنی ، عقل کو غصہ ، رحم کو ظلم ، سچ کوجھوٹ اور تحقیق کو افسانوی داستانوں کے بھینٹ چڑھا دیتا ہے ۔ جس طر ح “ایچ آئی وی ایڈزـ” سے بچا ؤ کا فی ا لفور علاج احتیاط تجویز کیا جاتاہے ۔ اس طرح علم وتحقیق اور شعور کی بیداری کے ذریعہ” جذباتی ایڈز ” اور “ایڈز زدگا ن” کے ممکنہ حملوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اورصرف تحقیق ہی ایک ایسا سمندر ہے جس کی موجیں جذباتی ایڈززدگان کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں کو تبدیل کرکے اعلیٰ محقق اور حقیقی دانشور بنا سکتی ہیں ۔
جذبات کی بجا ئے کسی بھی فعل کو سرانجام دینے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر غوروفکر اور اس سے برآمد ہونے والے نتا ئج کو سامنے رکھ کر بنائی گئی حکمت عملی ہی کا میا بی کی ضمانت دیتی ہے۔ اب اس ملک کے عوام جا گ چکے ہیں۔ وہ کھر ے کھوٹے کی تمیزکرنا جانتے ہیں ۔وہ اپنے مسا ئل اور ان کے حل کیلئے کٹھن مراحل سے ضرور گزر رہے ہیں مگر “جذ با تی ایڈز زدگا ن” کی با توں میں آنے والے نہیں کیو نکہ وہ جا نتے ہیں یہ اُن کی بقاء کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کی آنے والی نسلو ں کی زندگیو ں اور مادروطن کے وجود کا بھی سوال ہے ۔ وہ جا نتے ہیں ہزار بیرونی دشمن سہی، مگر گھر کے بھیدی کو لنکا نہیں ڈھانے دیں گے ۔
کسی سے والہانہ محبت یا پسندیدگی کوئی بری چیزنہیں ۔عام آدمی کو کیا مورد الزام ٹھہرانا اسے توجومیڈیا اور لٹریچر کے ذریعہ بتایا جاتا ہے وہ اسی کو حتمی چیز سمجھتا ہے ۔ رونا تو ان اہل دانش پر آ تا ہے جو یک رخی تصویر کی خا میوں پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنے آ پ کو علم وتحقیق سے دور کر کے جذباتیت کا پرچا ر کرتے ہیں ۔ من گھڑت قصے، کہا نیو ں کا سہا رالے کر اپنے جذ با ت کی تسکین تو کر لیتے ہیں۔ مگر عام آدمی کو کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ ہم لو گ صدیو ں پہلے بت پرستی سے تائب ہو کر دا ئرہ اسلام میں داخل تو ہوگئے۔ مگر ہما رے اندر کا بت پرست آ ج تک نہیں مر ا ۔ ہر وقت ہر شعبہء زندگی سے خواہ وہ کھیل کا میدان ہو، سا ئنس اور ٹیکنا لوجی کا شعبہ ہو، صنعت وحر فت ہو یا سیاست ، ہم ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جنہیں دیوتا کا درجہ دے سکیں ۔ پھر ان لو گو ں کو اس مقا م پر فا ئز کر دیتے ہیں کہ جہا ں فرعون ، نمرود یا شداد بھی انھیں دیکھ کر شرمائیں۔ ایسے لوگ قا نون ، قا نون بنا نے اور قا نون نافذ کر نے والو ں کو اپنے جو تے کی نو ک پر رکھتے ہیں ۔ ہم اپنے کسی بھی پسند یدہ فرد کے متعلق تنقیدی جا ئز ہ لینا پسند ہی نہیں کر تے اور نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں ۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کو شش کرتا ہے تو اس کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑ جا تے ہیں ۔ اس کا نتیجہ تب سامنے آ تا ہے جب وہ پسند یدہ فرد پوری قوم کے سا تھ ہا تھ کر چکا ہو تا ہے ۔اس کے بعد رونا ، دھونا اور ما تم کسی کام نہیں آ تا۔اس وادی پرخا ر کے با شعور عوام کو بڑا پرخلوص مشورہ ہے کہ جسے اپنا رہبر سمجھتے ہوں اس کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اسے عقل و قانون سے ماورا نہ سمجھیں ، یہی تر قی یا فتہ قو مو ں کا شیوہ تھا اور ہے ۔

تحریر: عبدالغفار انجم
03004939488
anjum207@gmail.com

اخبارات میں اشاعت

روزنامہ دنیا لاہور بروز اتوار
12 اکتوبر 2022

روزنامہ نواۓ وقت اسلام آباد

روزنامہ اومیگا نیوز لاہور
8 اکتوبر 2022