انسانوں کا آپس میں رابطہ رکھنے کے لئے کسی زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر علاقے کی اپنی زبان ہوتی ہے جو قدرتی طور پر وجود میں آتی ہے۔ اور اس کے وجود میں آنے کے بعد اس کے قوائد و ضوابط طے کئے جاتے ہیں۔ دنیا میں میں مختلف زبانیں بولنے والوں نے جب آپس میں رابطہ کرنا ہوتا ہے تو ان کو ایک دوسرے کی زبان سمجھنا لازمی ہے یا پھر کسی ایسی زبان کو چننا پڑتا ہے جو وہ دونوں جانتے ہوں۔ تا ریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو سلطنت زیادہ طاقتور رہی ہے نے اپنی زبان کو ترجیح دے کر اس کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ ان کی زبان بھی بطور بین الاقوامی زبان دنیا پر راج کرے۔
لیکن بعض امن پسند لوگوں نے سوچا کہ کوئی ایسی بین الاقوامی زبان ہو جو سب کے لیے قابل قبول بھی ہو اور سمجھنے اور سیکھنے کے لئے بھی آسان ہو۔ اس سلسلے میں مختلف زبانیں مصنوعی طور پر بھی بنائی گئیں لیکن زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔ پھر 1887 میں ایل ایل زامن ہوف نے اسپرانتو زبان کی بنیاد رکھی۔ جو آج تک مقبول بھی ہے اور دنیا کہ تقریبا ہر ملک میں اسپرانتو بولنے والے بھی موجود ہیں۔ اس کے قواعد بہت آسان ہیں تاکہ ہر کوئی آسانی کے ساتھ اس کو سمجھ سکے۔ دنیا میں اسپرانتو کے فروغ کے لئے جو ادراہ بطور سربراہ کام کر رہا ہے اس کا نام ہے، ‘یونیورسل اسپرانتو ایسو سی ایشن ‘ ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے ادارے دنیا میں یا اپنے علاقے میں اسپرانتو کے فروغ کے لئے موجود ہیں۔
پاکستان میں اسپرانتو کے فروغ کے لئے سب سے پہلے باقاعدہ ادارہ جو بنا اس کی بنیاد 1978 میں علامہ مُضطر عباسی نے رکھی۔ اس کا نام ہے ‘پاکستان اسپرانتو ایسوسی ایشن’ (پا کیسا PakEsA)۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں اسپرانتو کے فروغ کے لیے ادراے موجود ہیں۔
Universal Esperanto Association